سب اس محفل میں ہم سے منہ پھرا کر بات کرتے ہیں

غزل| پیامؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

سب اس محفل میں ہم سے منہ پھرا کر بات کرتے ہیں
وہاں چلئے جہاں پتھر سے پتھر بات کرتے ہیں
جو کوئی ہم نوا ملتا نہیں ہم غم کے ماروں کو
در و دیوار سے وحشت میں اکثر بات کرتے ہیں
وہ مجھ سے بات تو کرتے ہیں لیکن اس طرح جیسے
بہ مجبوری غریبوں سے تونگر بات کرتے ہیں
یہ ممکن ہے تجھے احساسِ رسوائی نہ ہو ظالم
ترے بارے میں لیکن لوگ گھر گھر بات کرتے ہیں
تجھے ہر بات ان کی زخم کی سوغات دیتی ہے
ہمیشہ وہ برنگِ تیر و نشتر بات کرتے ہیں
پیامؔ ان کے لبوں پہ نام میرا آ ہی جاتا ہے
وہ جب بھی کھل کے موضوعِ وفا پر بات کرتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام