بَہ رہا ہے زمیں کے دھارے پر

غزل| نصیر احمد ناصرؔ انتخاب| بزم سخن

بَہ رہا ہے زمیں کے دھارے پر
ایک دریا کہ ہے کنارے پر
جو تناور تھا سب درختوں میں
ٹکڑے ٹکڑے پڑا ہے آرے پر
پاؤں لٹکا کے جانبِ دنیا
آؤ بیٹھیں کسی ستارے پر
آگے جانے کی سب کو جلدی ہے
کوئی رکتا نہیں اشارے پر
عشق میں فائدہ نہیں ہوتا
کام چلتا ہے یہ خسارے پر
جھیل میں روشنی سی پھیل گئی
پاؤں رکھا ہی تھا شکارے پر
اچھا لگتا ہے بھیگنا مجھ کو
آؤ چلتے ہیں آبشارے پر
مر چکی ہیں علامتیں ناصرؔ
نزع طاری ہے استعارے پر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام