ریگِ ہستی کا استعارہ بن

غزل| نصیر احمد ناصرؔ انتخاب| بزم سخن

ریگِ ہستی کا استعارہ بن
اے سمندر کبھی کنارہ بن
یومِ دیوانگی منا اک دن
رقص کرتے ہوئے شرارہ بن
اپنی مرضی کی شکل دے خود کو
خود کو سارا مٹا دوبارہ بن
چھوڑ باقی تمام سازوں کو
بس محبت کا ایک تارا بن
پھول بن کر دکھا زمانے کو
سنگ مرمر نہ سنگ خارا بن
ایک دھاگے سے باندھ لے خود کو
ہلکا پھلکا سا ہو غبارہ بن
بادلوں سے اتر زمیں پر آ
آبِ استادہ تیز دھارا بن
میری آنکھوں میں آ محبت سے
میرا دیکھا ہوا نظارہ بن
مجھ میں تعمیر کر مکاں اپنا
در دریچہ کگر اسارا بن
اتنی خاموشیوں سے بہتر ہے
کوئی معنی بھرا اشارہ بن
صبح تک خوب جگمگا ناصرؔ
رات کا آخری ستارہ بن


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام