سکوں ہے ہمنوائے اضطراب آہستہ آہستہ

غزل| روشؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

سکوں ہے ہمنوائے اضطراب آہستہ آہستہ
محبت ہو رہی ہے کامیاب آہستہ آہستہ
عجب عالم ہے آغازِ سرورِ عشق کا عالم
اٹھے جیسے افق سے ماہتاب آہستہ آہستہ
سرشکِ غم کبھی شمع جدائی کو بجھا دیں گے
یہی تارے بنیں گے آفتاب آہستہ آہستہ
خرابِ نرگسِ مستانہ آخر ہو گیا زاہد
رسا ہوتی ہے تاثیرِ شراب آہستہ آہستہ
نشاطِ آرزو ، خوابِ تمنا ، دردِ محرومی
محبت نے اٹھائے سب حجاب آہستہ آہستہ
بہ ہر عنواں مسلسل چھیڑ ہے اب ان کے جلوؤں سے
بہک نکلی نگاہِ باریاب آہستہ آہستہ

روشؔ رازِ محبت آج بھی ہے رازِ لا ینحل
غلط ثابت ہوئے سارے جواب آہستہ آہستہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام