آماج گاہِ تیرِ ستم ، کون؟ ہم کہ آپ!

غزل| نوحؔ ناروی انتخاب| بزم سخن

آماج گاہِ تیرِ ستم ، کون؟ ہم کہ آپ!
پھر پوچھتے ہیں آپ سے ہم ، کون؟ ہم کہ آپ!
دل حسن پر نثار تو کر دوں بجا درست
جھیلے گا اس کے بعد ستم ، کون؟ ہم کہ آپ!
دنیا سے اٹھ چکا تھا محبت کا اعتبار
قائم کیے ہوئے ہے بھرم ، کون؟ ہم کہ آپ!
دونوں نے اتحاد کی کوشش ضرور کی
لیکن رہا نباہ میں کم ، کون؟ ہم کہ آپ!
روزِ جزا جو داد طلب ہوں گے داد خواہ
اس دن کرے گا عذر ستم ، کون؟ ہم کہ آپ!
طوفانِ اشکِ نوحؔ کا رکنا محال ہے
انجام دے یہ کار اہم ، کون؟ ہم کہ آپ!



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام