چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں​

نظم| ساحرؔ لدھیانوی انتخاب| بزم سخن

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں​
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی​
​نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے​
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے​
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے​
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے​
​مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں​
مرے ہم راہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی​
​تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو ا س کا بھولنا بہتر​
​تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا​
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
​اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں​



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام