کبھی اپنے عشق پہ تبصرے کبھی تذکرے رخِ یار کے

غزل| سرورؔ بارہ بنکوی انتخاب| بزم سخن

کبھی اپنے عشق پہ تبصرے کبھی تذکرے رخِ یار کے
یوں ہی بیت جائیں گے یہ بھی دن جو خزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلسمِ حسنِ خیال ہے کہ فریب تیرے دیار کے
سرِ بام جیسے ابھی ابھی کوئی چھپ گیا ہے پکار کے
سیو چاک دامن و آستیں کہ وہ سرگراں نہ ہو پھر کہیں
یہی رت ہے عشرتِ دید کی یہی دن ہیں آمدِ یار کے
ابھی اور ماتمِ رنگ و بو کہ چمن کو ہے طلبِ نمو
تیرے اشک ہوں کہ مرا لہو یہ امیں ہیں فصلِ بہار کے

غمِ روز و شب کی امین ہے یہ حیات پھر بھی حسین ہے
کہیں دھوپ عارضِ دوست کی کہیں سائے گیسوئے یار کے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام