جھلمل ہے دل میں آج بھی روشن ستارہ کیا

غزل| سعودؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

جھلمل ہے دل میں آج بھی روشن ستارہ کیا
اس 'ڈل' میں اب بھی تیر رہا ہے'شکارا' کیا
ہر روز صبح دم کوئی آئینہ ٹوٹنا
اس خواب میں بچے گا ہمارا تمہارا کیا
دیکھو یہ کارِِعشق نہیں کارِ خیر ہے
تم اس میں کر رہے ہو میاں استخارہ کیا
لوگو یہ شہر وہر نہیں ہے سراب ہے
اس فاصلے سے تم پہ کھلے گا نظارا کیا

یہ تم جو آئینے کی طرح چور چور ہو
تم نے بھی اپنی عمر کو دل پر گزارا کیا؟


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام