ممکن ہے اس راہ میں تجھ کو تپتی ریت پہ چلنا پڑے

غزل| سعودؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

ممکن ہے اس راہ میں تجھ کو تپتی ریت پہ چلنا پڑے
دیکھ زباں پر لفظ نہ آئے دیکھ جبیں پر بل نہ پڑے
سورج مرشد! تھوڑی کمی بس تھوڑی نمی رہ جاتی ہے
مجھ پر اپنی نظریں رکھنا جب تک کاغذ جل نہ پڑے
یک دم جلنا کام ہی کیا ہے سوختنی ، افروختنی
بات تو جب ہے جب تجھ کو بھی دھیمی آنچ میں گلنا پڑے
سسی تجھ کو جانے کب سے یہ ویرانہ ڈھونڈتا ہے
کیا ممکن ہے عشق چلے اور اس کی راہ میں تھل نہ پڑے
عمر کٹی جاتی ہے لیکن راہ گزر کٹتی ہی نہیں
کون سے یاں دریا نہیں آئے کون سے یاں جنگل نہ پڑے
اے یخ بستہ ہجر کدے کے لمبی راتوں والے دن
نیند تجھے اک رات نہ آئے چین تجھے اک پل نہ پڑے

جلتی آنکھو! سو جاؤ کچھ دیر کو لیکن شرط یہ ہے
دیکھ رہا ہوں خواب جو اس کا اس میں کوئی خلل نہ پڑے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام