یوں بیکار نہ بیٹھو دن بھر یوں پیہم آنسو نہ بہاؤ

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

یوں بیکار نہ بیٹھو دن بھر یوں پیہم آنسو نہ بہاؤ
اتنا یاد کرو کہ بالآخر آسانی سے بھول بھی جاؤ
سارے راز سمجھ لو لیکن خود کیوں ان کو لب پر لاؤ
دھوکا دینے والا رو دے ایسی شان سے دھوکا کھاؤ
ظلمت سے مانوس ہیں آنکھیں چاند ابھرا تو مند جائیں گی
بالوں کو الجھا رہنے دو اک الجھاؤ سو سلجھاؤ
کل مجھ پر الزام تھا سارا آج تو فق ہے رنگ تمہارا
کل تم مجھ سے شرمائے تھے آج آئینے سے شرماؤ
پہلو تو لٹ جائے گا لیکن آنکھیں تو ویراں نہ رہیں گی
بیشک میرے پاس نہ بیٹھو لیکن اِتنی دور نہ جاؤ
رس کا زمانہ بیت چکا ہے اب مَس ہے معراجِ محبّت
میں اس دور کا دیوانہ ہوں دل میں نہیں نظروں میں سماؤ
کل کو کل پر رکھو جب کل آئے گا دیکھا جائے گا
آج کی رات بہت بھاری ہے آج کی رات یہیں رہ جاؤ
کب تک یوں پردے پردے میں حسن محبّت کو جھٹلاتا
موت کا دن بھی حشر کا دن ہے چھپنے والو سامنے آؤ
دورِ خزاں میں سنتا ہوں تخلیق کا یہ آہنگِ مسلسل
کلی کلی کی نرم چٹک میں پھولو! میری آہٹ پاؤ
مرنے سے کچھ کام چلا تو اے دم سازو مر بھی لیں گے
مرنا تو برحق ہے لیکن تم جینے سے باز نہ آؤ



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام