نہیں ہے اب کوئی منزل نہیں ہے جادہ کوئی

غزل| سعودؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

نہیں ہے اب کوئی منزل نہیں ہے جادہ کوئی
ارادے توڑ کے نکلا ہے بالارادہ کوئی
یہ بات اس کو خبر بھی نہیں مگر سچ ہے
کہ چاہتا ہے مجھے اس سے بھی زیادہ کوئی
میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتا ہوں
کسی کے خواب سے کرتا ہے استفادہ کوئی
ہوائے تند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو
یہیں کہیں تھا چراغوں کا خانوادہ کوئی
اسی خیال سے پھر عمر بھر سکوت کیا
پکارتا ہو مجھے دور سے مبادا کوئی
جلے بغیر گزارا بھی اور کیا ہے سعودؔ
نباہنا بھی تو ہے روشنی سے وعدہ کوئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام