آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا
بوسہ لینے کے لئے کعبہ میں پتھر رکھ دیا
ہم نے اُن کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا
قطرۂ خونِ جگر سے کی تواضع عشق کی
سامنے مہمان کے جو تھا میسر رکھ دیا
منصفی ہو تو غضب نا منصفی ہو تو ستم
اُس نے میرا فیصلہ موقوف مجھ پر رکھ دیا
نامہ بر کہتا ہے مجھ سے کیا کرامت ہے تمہیں
جو وہ لکھتے وہ ہی تم نے خط میں لکھ کر رکھ دیا
سن لیا ہے پاس حوروں کے پہنچتے ہیں شہید
اس لئے لاشے پہ میرے اس نے پتھر رکھ دیا
شوق بھی ہے وہم بھی ہے کیا کروں اے نامہ بر
کل جو لکھا کاٹ کر وہ آج دفتر رکھ دیا
کہتے ہیں بوئے وفا آتی ہے ان پھولوں میں آج
دل جو ہم نے لالہ و گل میں ملا کر رکھ دیا
قتل کو میرے مری حسرت ادا تیری نہ تھی
نام اک لوہے کے ٹکڑے کا جو خنجر رکھ دیا
کل چھڑا لیں گے پہ زاہد آج تو ساقی کے ہاتھ
رہن اک چلّو پہ ہم نے حوضِ کوثر رکھ دیا
آتشِ دوزخ پہ ہوگا آتشِ تر کا گمان
گر کسی میکش نے اپنا دامنِ تر رکھ دیا
ذبح کرتے ہی مجھے قاتل نے دھوئے اپنے ہاتھ
اور خون آلودہ خنجر غیر کے گھر رکھ دیا
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیوں کر رکھ دیا
دیکھئے اب ٹھوکریں کھاتی ہے کس کس کی نگاہ
روزنِ دیوار میں ظالم نے پتھر رکھ دیا
شام ہی سے لوٹنا ہے مجھ کو انگاروں پر آج
اس لئے میں نے الگ تہہ کر کے بستر رکھ دیا
تیری مژگاں کے تصور نے دلِ بے تاب میں
ایک ترکش رکھ دیا اک گنج نشتر رکھ دیا
کعبے کے ساتھ خلد میں لے جائیں تیرا سنگ در
اتنی محنت ہے کہ یاں سے واں اٹھا کر رکھ دیا
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈوں اسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا

داغؔ کی شامت جو آئی اضطرابِ شوق میں
حالِ دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ دیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام