اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی

غزل| آرزوؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسب مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے رقص میں ہے پروانہ بھی
دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں بستی کیا ویرانہ ہے
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی
غنچے چپ ہیں گل ہیں ہوا پر کس سے کہیے جی کا حال
خاک نشیں اک سبزہ ہے سو اپنا بھی بیگانہ بھی
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اڑ کے چلا پروانہ بھی
خون ہی کی شرکت وہ نہ کیوں ہو شرکت چیز ہے جھگڑے کی
اپنوں سے وہ دیکھ رہا ہوں جو نہ کرے بیگانہ بھی

دورِ مسرت آرزوؔ اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھوٹ پڑا پیمانہ بھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام