میرے اپنے مجھے مٹی میں ملانے آئے

غزل| راحتؔ اندوری انتخاب| بزم سخن

میرے اپنے مجھے مٹی میں ملانے آئے
اب کہیں جا کے میرے ہوش ٹھکانے آئے
تو نے بالوں میں سجا رکھا تھا کاغذ کا گلاب
لوگ یہ سمجھے بہاروں کے زمانے آئے
چاند نے رات کی دہلیز کو بخشے ہیں چراغ
میرے حصّے میں بھی اشکوں کے خزانے آئے
دوست ہو کے بھی مہینوں نہیں ملتا مجھ سے
اس سے کہنا وہ کبھی زخم لگانے آئے

فرصتیں چاٹ رہی ہیں مری ہستی کا لہو
منتظر ہوں مجھے کوئی بلانے آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام