صرف اخبار کی سرخیاں رہ گئیں

غزل| ڈاکٹر حنیف شبابؔ انتخاب| بزم سخن

صرف اخبار کی سرخیاں رہ گئیں
یعنی جلتی ہوئی بستیاں رہ گئیں
بھاؤ جب سے بڑھے گاؤں میں شہر میں
بیٹے بکنے لگے بیٹیاں رہ گئیں
جانے کب آئے وہ بس اسی آس میں
ادھ کھلی ادھ کھلی کھڑکیاں رہ گئیں
وہ صبا تو نہ تھی وہ تھی بادِ سموم
کانپ کر پھول کی تتلیاں رہ گئیں
ہونٹ افسردہ اور آنکھیں حیرت زدہ
جانے کس دیس اب شوخیاں رہ گئیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام