غنیمت ہے یہی شاید کہ زخمِ دل ہے نادیدہ

غزل| شان الحق حقیؔ انتخاب| بزم سخن

غنیمت ہے یہی شاید کہ زخمِ دل ہے نادیدہ
پڑے ہیں اس کی راہوں میں ہزاروں غنچۂ چیدہ
ذرا دامن کو چھولیجے تو ہو جاتے ہو رنجیدہ
کبھی مدہوش متوالے کبھی بنتے ہو فہمیدہ
چھپایا ہی نہیں جاتا خمارِ شوقِ پوشیدہ
ترے کوچے میں اٹھتے ہیں قدم لغزیدہ لغزیدہ
وہ بیٹھے ہیں خفا ہو کر بڑے سنجیدہ سنجیدہ
کچھ اپنے دل سے ہوتے ہیں سخن پوشیدہ پوشیدہ
وہی اک حسنِ بے پیکر وہی ایک دست بے دیدہ
صنم ہیں میرے بت خانے کے اب تک نا تراشیدہ
رہا ہر رنگ دھندلا سا رہا ہر روپ پوشیدہ
نہ اترا زندگی بھر میں خمارِ چشمِ خوابیدہ
عجب کیا راہ ہستی پر اگر ہیں پاؤں لغزیدہ
سراسیمہ چلے آئے تھے یوں ہی اٹھ کے طلبیدہ
رواں ہے سازِ دل پر زخم در کا دست نادیدہ
ٹھہر جائے گا آخر رفتہ رفتہ تارِ لرزیدہ



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام