اٹھی وہ گھٹا رنگ سامانیاں کر

غزل| جوشؔ ملیح آبادی انتخاب| بزم سخن

اٹھی وہ گھٹا رنگ سامانیاں کر
گہر پاشیاں کر زر افشانیاں کر
وہ چہکے عنادل وہ سنگیں ہوائیں
گلوں کی طرح چاک دامانیاں کر
صراحی جھکا اور دھومیں مچا دے
گلابی اٹھا اور گل افشانیاں کر
مٹا داغِ ہوش اور مدہوش بن جا
اٹھا جامِ زر اور سلطانیاں کر
نگاہوں سے برسا دے ابرِ جوانی
مئے لالہ گوں سے گلستانیاں کر
سمندر پہ چل اور الیاس بن جا
ہواؤں پہ اڑ اور سلیمانیاں کر
صبا کی طرح کنج میں رقص فرما
بگولوں کی مانند جولانیاں کر
سکوں پاؤں چومے وہ ہلچل مچا دے
خرد سر جھکا دے وہ نادانیاں کر
علم کھول کر جوشؔ بد مستیوں کے
جہاں داریاں کر جہاں بانیاں کر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام