خون مجبوروں کا ہر گام بہانے والے

غزل| ماجدؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

خون مجبوروں کا ہر گام بہانے والے
کیا کہیں گے تجھے آخر یہ زمانے والے
کانپتے ہاتھوں سے تلوار اٹھانے والے
تیرے اجداد تھے تاریخ بنانے والے
کشتیاں ہم نے جلا دی ہیں بھروسے پہ تیرے
اب یہاں سے نہیں ہم لوٹ کے جانے والے
کوئی کہہ دے یہ ذرا وقت کے شیطانوں سے
خاک ہو جاتے ہیں سورج کو بجھانے والے
زندہ رہنا ہے تو پھر خود کو مٹانا سیکھو
گھٹ کے مرتے ہیں سدا جان بچانے والے
ہاتھ اپنے بھی گنوا بیٹھیں گے اک دن ماجدؔ
سجدہ گاہوں کے تقدس کو مٹانے والے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام