ذرا سی بات کیا کہی خفا سے ہو کے رہ گئے

غزل| ماجدؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

ذرا سی بات کیا کہی خفا سے ہو کے رہ گئے
خدا نے حسن کیا دیا خدا سے ہو کے رہ گئے
وہ مسئلے جو جستجو سے حل نہ ہو سکے کبھی
وہ حل تمام ماں کی اک دعا سے ہو کے رہ گئے
جہاں میں اک مثال تھی ہمارے اتحاد کی
الگ الگ ہوئے تو ہم ذرا سے ہو کے رہ گئے
تمہارے پاس جب سے آ گیا نظامِ مے کدہ
جو پیاسے تھے وہ لوگ اور پیاسے ہو کے رہ گئے
زمانہ انقلاب کی سنا رہا تھا داستاں
نتیجتاً ہزاروں ہاتھ کاسے ہو کے رہ گئے
یہ نفرتیں یہ سازشیں یہ الجھنیں یہ زحمتیں
وہ دور ہے ستم سبھی روا سے ہو کے رہ گئے

خموش رہنا پڑ رہا ہے ماجدؔ اس خیال سے
ہمارے مشورے بھی اب خطا سے ہو کے رہ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام