بڑے ادب سے غرورِ ستم گراں بولا

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

بڑے ادب سے غرورِ ستم گراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
تکو گے یونہی ہواؤوں کا منہ بھلا کب تک
یہ ناخداؤوں سے اک روز بادباں بولا
ابھی سے ہوش اڑے مصلحت پرستوں کے
ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا
چمن میں سب کی زباں پر تھی میری مظلومی
مرے خلاف جو بولا تو باغباں بولا
یہی بہت ہے کہ زندہ تو ہو میاں صاحب
زمانہ سن کے مرے غم کی داستاں بولا
تلے ہیں قتل پہ پھولوں میں تولنے والے
اک ایسا بول میں جھوٹوں کے درمیاں بولا
حصارِ جبر میں زندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیں مارا مگر دھواں بولا
اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہیں
مرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا
کہا نہ تھا کہ نوازیں گے ہم حفیظؔ تجھے
اڑا کے وہ مرے دامن کی دھجیاں بولا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام