تمام اپنے ہیں اپنا مگر کوئی بھی نہیں

غزل| بشرؔ نواز انتخاب| بزم سخن

تمام اپنے ہیں اپنا مگر کوئی بھی نہیں
سبھی کو دعوی ہے سچا مگر کوئی بھی نہیں
بہت قریب سے کوئی صدا تو دیتا ہے
کروں تلاش تو ملتا مگر کوئی بھی نہیں
لکھا ہے کون سے پتے پہ جانے کس کا نام
ہوائیں تیز ہیں ڈرتا مگر کوئی بھی نہیں
نہ جانے کون سے جادو میں آ گیا ہوں میں
مکاں ہیں سامنے رستہ مگر کوئی بھی نہیں
سنا رہے تھے زمانے ہزار افسانے
سنا ہر ایک نے سمجھا مگر کوئی بھی نہیں
سب اپنے اپنے حسابوں پہاڑ جیسے تھے
ہوا کے سامنے ٹھہرا مگر کوئی بھی نہیں
بھٹک رہے ہیں دفینے کی جستجو میں سبھی
کسی کی جیب میں نقشہ مگر کوئی بھی نہیں
کٹی جو رات تو عالم عجیب تھا سورج
جگا کے تھک گیا جاگا مگر کوئی بھی نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام