اپنے تو آس پاس کہیں بھی نہیں ہیں ہم

غزل| من موہن تلخؔ انتخاب| بزم سخن

اپنے تو آس پاس کہیں بھی نہیں ہیں ہم
گویا جہاں کبھی تھے وہیں کے وہیں ہیں ہم
ہم سانس سانس بس کہ ہیں اندر کی یہ فغاں
کہتے رہیں یہ لاکھ کے ہم ہیں نہیں ہیں ہم
ہیں کیوں گئے ہوؤں کی طرح گوش بر صدا
خود کو بلا رہے ہیں یہ کیا جب یہیں ہیں ہم
ہم اس لئے بھی گھر سے نکلتے ہیں کم ذرا
جانا کہیں ہو اور پہنچتے کہیں ہیں ہم
چاروں طرف سے شہر مگر پھیلتا گیا
کہتے بھی ہم تو کس سے کہ گوشہ نشیں ہیں ہم
ہونے کی بات یہ ہے کہ ہم ہیں تو ہیں کہاں
کیسے کھلے کہیں بھی نہیں یا کہیں ہیں ہم
ہر ہر قدم پہ دل میں بہت وسوسے بھی ہیں
لغزش بھی کھائیں کیا کہ تمہارا یقین ہیں ہم
ملتا نہیں جواز کسی بات کا کوئی
اپنے ہی ایک عمر سے وہ نکتہ چیں ہیں ہم

قرنوں سے سلسلہ یہ چلا آ رہا کوئی
اور اس صدی میں چپ کی زباں کے امیں ہیں ہم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام