جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
کیا ہی جھنجھلا کے وہ بولے کہ ہمیں اچھے ہیں
کس بھروسے پہ کریں تجھ سے وفا کی امید
کون سے ڈھنگ ترے جانِ حزیں اچھے ہیں
خاک میں آہ ملا کر ہمیں کیا پوچھتے ہو
خیر جس طور ہیں ہم خاک نشیں اچھے ہیں
دل میں کیا خاک جگہ دوں ترے ارمانوں کو
کہ مکاں ہے یہ خراب اور مکیں اچھے ہیں
مجھ کو کہتے ہیں رقیبوں کی برائی سن کر
وہ نہیں تم سے برے بلکہ کہیں اچھے ہیں

بت وہ کافر ہیں کہ اے داغؔ خدا ان سے بچائے
کون کہتا ہے یہ غارت گرِ دیں اچھے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام