بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں
ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں
ہم تصور میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں
سب میں اڑ جاتی ہے ظالم اسے کیا کہتے ہیں
جو بھلے ہیں وہ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں
نہ برا سنتے ہیں اچھے نہ برا کہتے ہیں
وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ دیں گے
غیر کا حال جو پوچھا تو کہا کہتے ہیں
نہیں ملتا کسی مضمون سے ہمارا مضمون
طرز اپنی ہے جدا سب سے جدا کہتے ہیں
پہلے تو داغؔ کی تعریف ہوا کرتی تھی
اب خدا جانے وہ کیوں اس کو برا کہتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام