سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی

غزل| مرزا داغؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی
یہی کم بخت دکھا دیتی ہے صورت اچھی
حسنِ معشوق سے بھی حسنِ سخن ہے کم یاب
ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی
میری تصویر بھی دیکھی تو کہا شرما کر
یہ برا شخص ہے اس کی نہیں ہیئت اچھی
ہر طرح دل کا ضرر جان کا نقصاں دیکھا
نہ محبت تری اچھی نہ عداوت اچھی
کس صفائی سے کیا وصل کا تو نے انکار
اس محل پر تو زباں میں تری لکنت اچھی
ہجر میں کس کو بلاؤں نہ بلاؤں کس کو
موت اچھی ہے الہی کہ قیامت اچھی
دیکھنے والوں سے انداز کہیں چھپتے ہیں
ہم کو پردے میں نظر آتی ہے صورت اچھی
میری شامت کے دکھائی اسے دشمن کی شبیہ
مسکرا کر یہ کہا اس نے نہایت اچھی
جو ہو آغاز میں بہتر وہ خوشی ہے بد تر
جس کا انجام ہو اچھا وہ مصیبت اچھی
رہے سر ناز فروشی تو خریدار بہت
بیچ ڈالو اسے مل جائے گی قیمت اچھی
عیب بھی اپنے بیاں کرنے لگے آخر کار
ہو گئی ان کو برا کہنے کی عادت اچھی
تم بتاؤ تو سہی مہر و محبت کے گواہ
ایسے دعوے میں تو جھوٹی ہی شہادت اچھی

زور و زر سے بھی کہیں داغؔ حسیں ملتے ہیں
اپنے نزدیک تو ہے سب سے اطاعت اچھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام