آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے

غزل| جاوید اختر انتخاب| قتیبہ جمال

آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا ملنے جلنے لگے آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں آ گئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہو گئی دوستی اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے
آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی کیا کہیں ہم سے کیا بد حواسی ہوئی
کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی بات جو تھی چھپانی بتانے لگے
عشق بے گھر کرے عشق بے در کرے عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانہ نہیں
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے​


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام