بندھا ہے عہدِ جنون چشمِ اعتبار کے ساتھ

غزل| عرشؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

بندھا ہے عہدِ جنون چشمِ اعتبار کے ساتھ
اسے کہو کہ جئے عزمِ استوار کے ساتھ
ہو سکی کبھی توفیق در گزر کی اسے
نہ چل سکے کبھی ہم خود بھی اقتدار کے ساتھ
فقیہہِ شہر سے کہنا دل کشادہ رکھے
ملا ہے منصبِ اعلی جو اختیار کے ساتھ
نشانِ ناقۂ لیلی پہونچ سے دور نہیں
کبھی چلو تو سہی دو قدم غبار کے ساتھ
تمام عمر رہا وہ رہینِ منتِ غیر
اسے تو مرنا بھی آیا نہیں وقار کے ساتھ
ازل سے عرشؔ اک آوارگی نصیب میں ہے
ہوائے دشت کو نسبت نہیں قرار کے ساتھ



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام