فسونِ حرف لے گیا طلسمِ خواب لے گیا

غزل| مظہرؔ امام انتخاب| بزم سخن

فسونِ حرف لے گیا طلسمِ خواب لے گیا
ورق ورق اسی کا تھا وہی کتاب لے گیا
ابھی نگہ جھکی نہ تھی کہ میں نے ہونٹ رکھ دئیے
سوال وہ نہ کر سکا مگر جواب لے گیا
مجھے پتہ تھا راہ میں چراغ جل نہ پائے گا
وہاں گیا تو اپنے ساتھ ماہتاب لے گیا
مری ازل کی تشنگی بجھا گیا وہ نرم دل
نشاطِ آب دے گیا غمِ سراب لے گیا
تھا دیکھنے میں سادہ رو مگر بڑا ذہین تھا
مجھے گناہ گار کر کے وہ ثواب لے گیا
نگاہِ امتیاز کا شکار میں ہوا امامؔ
یہاں وہ خار دے گیا وہاں گلاب لے گیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام