دیدہ ور کوئی نہ تھا بس جلوہ گر دیکھا کئے

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

دیدہ ور کوئی نہ تھا بس جلوہ گر دیکھا کئے
آب و تابِ بزم کو دیوار و در دیکھا کئے
جب نہ تھا پردہ انہی کو جلوہ گر دیکھا کئے
اور جب پردہ گرا دیوار و در دیکھا کئے
ان کی نظروں سے حسین شام و سحر دیکھا کئے
وہ جدھر دیکھا کئے ہم بھی ادھر دیکھا کئے
دل کے اندر جھانک کر زخمِ جگر دیکھا کئے
کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ہم مگر دیکھا کئے
دیکھتے ہم روبرو ہو کر کہاں تھی یہ مجال
آئینے میں ان کا حسنِ معتبر دیکھا کئے
ان کے بے بنیاد وعدے پر جو کر کے اعتبار
راہ بے تابی سے ان کی رات بھر دیکھا کئے
مقصدِ فن آج تک میرا کوئی سمجھا نہیں
گو کہ اندازِ سخن اہلِ نظر دیکھا کئے
کیوں میرا سوزِ دروں تم کو نظر آتا نہیں
میرے دل کی کیفیت برق و شرر دیکھا کئے
کارواں کی فکر ان کو ہے نہ منزل کی خبر
راہ رو بس اپنی اپنی رہ گزر دیکھا کئے
آپ کو دیکھا تو کیا اس میں نگاہوں کا قصور
پرکشش تصویر تھی ہم ڈوب کو دیکھا کئے
در حقیقت دیکھنا تھا آپ کو معیارِ فن
آپ بس الفاظ کے زیر و زبر دیکھا کئے
ہیں رواں ہم بھی مدارِ گردشِ دوراں کے ساتھ
تیز رفتاری ہماری بحر و بر دیکھا کئے

عیب ان کے دیکھ کر بھی چشم پوشی میں نے کی
نقص اے اقبالؔ میرے وہ مگر دیکھا کئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام