گلستاں پر خزاں چھائی ہوئی ہے

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

گلستاں پر خزاں چھائی ہوئی ہے
کلی ہر ایک مرجھائی ہوئی ہے
مرے محبوب تجھ سے مل کے میری
محبت سے شناسائی ہوئی ہے
نہ پوچھو عشق نے کیا گل کھلائے
سرِ بازار رسوائی ہوئی ہے
بھلا بیٹھا ہوں خودکی ذات جب سے
تمہاری جلوہ آرائی ہوئی ہے
فقط نامِ خدا ہے اور میں ہوں
عذابِ جاں یہ تنہائی ہوئی ہے
تمہارے سامنے بھی رقص کرتے
مگر ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے
مقامِ عشق کو پانے کے خاطر
بڑی ہنگامہ آرائی ہوئی ہے
گھٹا جاتا ہے دم تاریکیوں میں
گھٹا چاروں طرف چھائی ہوئی ہے
فسانہ ہے کہ ہیں ماضی کی یادیں
جو بھولی بات یاد آئی ہوئی ہے
ہوس کی آگ اے اقبالؔ کیوں کر
دلِ زاہد کو بھڑکائی ہوئی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام