روشنی میں کس قدر دیوار و در اچھے لگے

غزل| اسعدؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

روشنی میں کس قدر دیوار و در اچھے لگے
شہر کے سارے مکاں سارے کھنڈر اچھے لگے
پہلے پہلے میں بھی تھا امن و اماں کا معترف
اور پھر ایسا ہوا نیزوں پہ سر اچھے لگے
جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال
جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے
دائرہ در دائرہ پانی کا رقصِ جاوداں
آنکھ کی پتلی کو دریا کے بھنور اچھے لگے

کیسے کیسے مرحلے سر تیری خاطر سے کئے
کیسے کیسے لوگ تیرے نام پر اچھے لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام