یہ لوگ خواب بہت کربلا کے دیکھتے ہیں

غزل| اسعدؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

یہ لوگ خواب بہت کربلا کے دیکھتے ہیں
مگر غنیم کو گردن جھکا کے دیکھتے ہیں
سنا ہے برف اپنی روشنی سے ڈرتی ہے
سو اک چراغ کو ہم بھی جلا کے دیکھتے ہیں
جنوں میں کوئی اضافہ نہیں ہے مدت سے
غبارِ جسم بھی اب کے اڑا کے دیکھتے ہیں
یہ دل ہے ٹھہری ہوئی جھیل کی طرح کب سے
اب اس میں پھر کوئی پتھر گرا کے دیکھتے ہیں
پھر اک خیال کو زنجیر کر دیا ہم نے
پھر ایک نام کو دل سے مٹا کے دیکھتے ہیں
انہیں کہو کہ کبھی جنگلوں کی سمت بھی آئیں
جو بستیوں میں کرشمے خدا کے دیکھتے ہیں

جو معرکوں میں کبھی بھی نہیں گئے وہ لوگ
زرہ و خود بدن پر سجا کے دیکھتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام