شہر کی شام ہے تنہائی ہے

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

شہر کی شام ہے تنہائی ہے
آج اندیشۂ رسوائی ہے
ہر نظر جس کی تمنائی ہے
لوگ کہتے ہیں وہ ہرجائی ہے
ہے زمانے کا نرالا انداز
کہیں ماتم کہیں شہنائی ہے
خوب رنگین ہیں جلوے اس کے
ہر طرف جیسے بہار آئی ہے
گلشنِ بزمِ سخن میں ہر سو
غنچہ و گل کی پذیرائی ہے
یہ جوانی یہ ادائیں یہ خمار
تیری تصویر نکھر آئی ہے
ہر طرف جشنِ بہاراں ہے مگر
میرے گلشن پہ خزاں چھائی ہے
کھو گیا دیکھ کے چہرہ تیرا
یہ تیرے حسن کر رعنائی ہے
تیری مسکان کی ہلکی سی جھلک
جیسے بجلی کہیں لہرائی ہے
ہم ملے آپ ملے دل بھی ملے
یہ بھی تقدیر کی رعنائی ہے
دے دیا زہر دوا کے بدلے
آپ کی خوب مسیحائی ہے
تلخ باتیں یہ تری اے اقبالؔ
جن میں پنہاں تری سچائی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام