وجد میں آنا یکایک اس دلِ برباد کا

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

وجد میں آنا یکایک اس دلِ برباد کا
پیش خیمہ ہے زوالِ قوتِ صیّاد کا
نوچ کر میں پھینک آیا آج اس سینے سے دل
ایک کانٹا چبھ رہا تھا اُس میں تیری یاد کا
کیا کرو گے پڑھ کے میری سرگزشتِ زندگی
حصّۂ اوّل نہیں ملتا مری روداد کا
میں اکیلا سر بکف دشمن کا لشکر سامنے
کوئی رستہ بھی نظر آتا نہیں امداد کا
روح جیسے ایک رقّاصہ ہو قصرِ جسم میں
اور سارا جسم قیدی عمر کے جلاد کا
میں اگر ٹوٹا تو سارا شہر بکھرے گا نبیلؔ
ایسا پتّھر ہوں فصیلِ شہر کی بنیاد کا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام