زمین آنکھیں مسل رہی تھی ہوا کا کوئی نشاں نہیں تھا

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

زمین آنکھیں مسل رہی تھی ہوا کا کوئی نشاں نہیں تھا
تمام سمتیں سلگ رہی تھیں مگر کہیں بھی دھواں نہیں تھا
چراغ کی تھرتھراتی لو میں ہر اوس قطرے میں ہر کرن میں
تمہاری آنکھیں کہاں نہیں تھیں تمہارا چہرہ کہاں نہیں تھا
وہ کیسا موسم تھا زرد شاخوں سے سبز بیلیں لپٹ رہی تھیں
وہ سبز بیلیں کہ جن کی آنکھوں میں کوئی خوفِ خزاں نہیں تھا
یگوں کے رتھ پر سوار گہری خموشیوں نے بتایا مجھ کو
کہ تم سے پہلے بھی اور پہلے بھی بس یقیں تھا گماں نہیں تھا
دیارِ ہجراں کی وحشتوں کا طلسم ٹوٹا تو میں نے جانا
ہر ایک دستک ہواوؤں میں تھی مکیں نہیں تھے مکاں نہیں تھا
وہ ایک لمحہ تھا سر خوشی کا فسوں تھا دریافت کے سفر کا
جو ریگِ جاں میں چمک رہا تھا ستارۂ آسماں نہیں تھا

اسی زمیں کی تہوں میں بہتا تھا میٹھے پانی کا ا یک چشمہ
سراب زادوں کی تشنگی کو نبیلؔ اس کا گماں نہیں تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام