جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر ایک سنسان گھر چاندنی اور میں

غزل| عرفانؔ ستار انتخاب| بزم سخن

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر ایک سنسان گھر چاندنی اور میں
بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک زنجیرِ در خامشی اور میں
اک اذیت میں رہتے ہوئے مستقل ایک لمحے کو غافل نہیں ذہن و دل
کچھ سوالات ہیں ان کے پیشِ نظر انتہا کی خبر آگہی اور میں
تیری نسبت سے اب یاد کچھ بھی نہیں اس تعلق کی روداد کچھ بھی نہیں
اب جو سوچوں تو بس یاد ہے اس قدر ایک پہلی نظر تشنگی اور میں
اس کو پانے کی اب جستجو بھی نہیں جستجو کیا کریں آرزو بھی نہیں
شوقِ آوارگی! بول جائیں کدھر ہو گئے در بدر زندگی اور میں
لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں
پھول پتے شجر منتظر چشمِ تر رات کا یہ پہر روشنی اور میں
کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا ایسی حالت میں تو میری ہمت بندھا
یہ کڑی رہ گزر رائیگانی کا ڈر مضمحل بال و پر بے بسی اور میں
گفتگو کا بہانہ بھی کم رہ گیا رشتۂ لفظ و معنی بھی کم رہ گیا
ہے یقیناً کسی کی دعا کا اثر آج زندہ ہیں گر شاعری اور میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام