پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا

غزل| عزیز بانو داراب وفاؔ انتخاب| بزم سخن

پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا
جہاں چلتا ہے اپنے ساتھ خالی راستہ اپنا
کسی دریا کی صورت بہہ رہی ہوں اپنے اندر میں
مرا ساحل بڑھاتا جا رہا ہے فاصلہ اپنا
لٹا کے اپنا چہرہ تک رہی ہوں اپنا منہ جیسے
کوئی پاگل الٹ کے دیکھتا ہو آئینہ اپنا
گئے موسم میں میں نے کیوں نہ کاٹی فصل خوابوں کی
میں اب جاگی ہوں جب پھل کھو چکے ہیں ذائقہ اپنا
یہ بستی لوگ کہتے ہیں مرے خوابوں کی بستی ہے
گنوا بیٹھی ہوں میں بد قسمتی سے حافظہ اپنا
کہیں یہ راہ بھی مجھ کو مجھی تک پھر نہ پہنچا دے
بدل کے دیکھتی ہوں ہر قدم پر راستہ اپنا

فسانہ در فسانہ پھر رہی ہے زندگی جب سے
کسی نے لکھ دیا ہے طاقِ نسیاں پر پتہ اپنا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام