سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا

غزل| ڈاکٹر وسیمؔ بریلوی انتخاب| بزم سخن

سبھی کا دھوپ سے بچنے کو سر نہیں ہوتا
ہر آدمی کے مقدّر میں گھر نہیں ہوتا
کبھی لہو سے بھی تاریخ لکھنی پڑتی ہے
ہر ایک معرکہ باتوں سے سر نہیں ہوتا
میں اس کی آنکھ کا آنسو نہ بن سکا ورنہ
مجھے بھی خاک میں ملنے کا ڈر نہیں ہوتا
قلم اٹھائے مرے ہاتھ تھک گئے پھر بھی
تمہارے گھر کی طرح میرا گھر نہیں ہوتا
مجھے تلاش کروگے تو پھر نہ پاؤ گے
میں اک صدا ہوں صداؤں کا گھر نہیں ہوتا
ہماری آنکھ کے آنسو کی اپنی دنیا ہے
کسی فقیر کو شاہوں کا ڈر نہیں ہوتا
تلاش کرتے ہیں دیوار و در کے مذہب کو
جلانے والوں کی نظروں میں گھر نہیں ہوتا
میں اس مکان میں رہتا ہوں اور زندہ ہوں
وسیمؔ جس میں ہوا کا گزر نہیں ہوتا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام