ذرا سی دیر میں وہ جانے کیا سے کیا کر دے

غزل| عزیز بانو داراب وفاؔ انتخاب| بزم سخن

ذرا سی دیر میں وہ جانے کیا سے کیا کر دے
کسے چراغ بنا دے کسے ہوا کر دے
مرے مزاج کے کوفے پہ جس کا قبضہ ہے
خبر نہیں کہ وہ کب مجھ کو کربلا کر دے
یہ کون شخص ہے اس لفظ جیسا لگتا ہے
مرے وجود کے مطلب کو جو ادا کر دے
میں کس زبان میں اس کو کہاں تلاش کروں
جو میری گونج کا لفظوں سے ترجمہ کر دے

جسے میں ڈھونڈھ رہی ہوں کہیں یہ وہ تو نہیں
جو اک نظر مجھے دیکھے اور آئینہ کر دے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام