بھاری تھا جس کا بوجھ وہ لمحہ لیے پھرا

غزل| نشترؔ خانقاہی انتخاب| بزم سخن

بھاری تھا جس کا بوجھ وہ لمحہ لیے پھرا
سر پر میں اک پہاڑ کو تنہا لیے پھرا
آنکھیں تھیں بند دیکھنے والا کوئی نہ تھا
ایسے میں دل کا داغِ تمنا لیے پھرا
یہ شہرِ بے حبیب یہ خود صحبتی کا شغل
فقدانِ دوست ہجر کا صحرا لیے پھرا
اس فکر میں کہ چہرۂ موزوں کوئی ملے
ہونٹوں پہ میں خیال کا بوسہ لیے پھرا
سمجھا نہیں کہ خلق کو راس آ گئی ہے دھوپ
ناحق میں اس دیار میں سایہ لیے پھرا
ناداں ہوں دل پہ حروف وفا لکھ کے شہر شہر
میں یادگارِ عہدِ گزشتہ لیے پھرا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام