جنم جنم کی رفاقتوں کا اتر رہا ہے خمار بھی اب

غزل| نشترؔ خانقاہی انتخاب| بزم سخن

جنم جنم کی رفاقتوں کا اتر رہا ہے خمار بھی اب
قرار شاید نہ دے سکے گا طویل مدت کا پیار بھی اب
یہ شہر شہرِ ہوس ہے اس میں قیام تا دیر نہ مناسب
قریبِ وقتِ وداعِ شب ہے سمیٹ بستر سدھار بھی اب
مکان کب منہدم ہوئے تھے فلک فلک دھول کب اڑی تھی
فضا میں باقی نہیں رہا ہے گئے دنوں کا غبار بھی اب
تھکن سے ہو جائیں شل نہ بازو کہیں نہ شہپر جواب دے دیں
ہوا میں اخر اڑے گا کب تک قدم زمین پر اتار بھی اب
شکست وعدہ ہے ذہن و دل کا زیاں نہیں تھا زیاں تو یہ ہے
نہیں رہیں خوش قیاس راتیں نہیں رہا انتظار بھی اب
برہنہ فکری کے روز و شب میں رہا نہ جذبہ کوئی سلامت
ملن کی راحت نہ دے سکے گا یہ لمحۂ خوشگوار بھی اب

تغیراتِ جہاں میں کیوں ہو مجھی سے اصرارِ وضع داری
بدل گئیں جب تمہاری نظریں بدل گیا خاکسار بھی اب


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام