رہ کے میں زمانے میں دور ہوں زمانے سے

غزل| شعریؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

رہ کے میں زمانے میں دور ہوں زمانے سے
رنگِ رخ نکھر آیا بارِ غم اٹھانے سے
ربط ہی نہیں جس کا اب کوئی زمانے سے
کیوں اسے اٹھاتے ہو اپنے آستانے سے
ہجر کی کٹھن راتیں جاگ کر گزاری تھیں
موت آ گئی آخر نیند کے بہانے سے
رہ چکے بہت برہم آؤ اب گلے مل لیں
راہ و رسم بہتر ہے رنجشیں بڑھانے سے
دوستوں کو بھی دیکھا دشمنوں کو بھی سمجھا
اب کہیں نکل چلیۓ دور اس زمانے سے
ان کا نام سنتے ہی چشمِ شوق بھر آئی
اور ہوگیا افشا رازِ دل چھپانے سے
وہ خفا سہی لیکن شوقِ دید ارے توبہ
ان کو دیکھ آتا ہوں اک نہ اک بہانے سے
التماسِ غم سن لو کیا تمہیں نہیں معلوم
دل بھی ٹوٹ جاتا ہے آس ٹوٹ جانے سے
قید و بند کی راحت اُس اسیر سے پوچھو
جو قفس میں خود آئے اڑ کے آشیانے سے
اف وہ پیار کی باتیں ہائے وہ حسیں راتیں
کیا نہ مجھ کو یاد آیا اُن کے یاد آنے سے
مجھ کو دے گی کیا جنبش اب روش زمانے کی
اپنے ساتھ انہیں لے کر ہٹ گیا زمانے سے
حسنِ بے نہایت کی ہر جگہ حکومت ہے
عرش بھی نہیں محفوظ عشق کے نشانے سے
اک نگاہِ برہم کے ساتھ ساتھ چلتا ہے
گردشیں زمانے کی چھین کر زمانے سے

عالمِ محبت کا حال کیا کہوں شعریؔ
ہر طرف اداسی ہے دل کے ڈوب جانے سے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام