جو خط ہے شکستہ ہے جو عکس ہے ٹوٹا ہے

غزل| حفیظؔ بنارسی انتخاب| بزم سخن

جو خط ہے شکستہ ہے جو عکس ہے ٹوٹا ہے
یا حسن ترا جھوٹا یا آئینہ جھوٹا ہے
ہم شکر کریں کس کا شاکی ہوں تو کس کے ہوں
رہزن نے بھی لوٹا ہے رہبر نے بھی لوٹا ہے
یاد آیا ان آنکھوں کو پیمانِ وفا جب بھی
ساغر مرے ہاتھوں سے بے ساختہ چھوٹا ہے
ہر چہرے پہ لکھا ہے اک قصۂ مظلومی
بے درد زمانے نے ہر شخص کو لوٹا ہے
منزل کی تمنا میں سر گرمِ سفر ہیں سب
کون اس کے لئے روئے جو راہ میں چھوٹا ہے
اللہ رے حفیظؔ اس کا یہ ذوقِ خود آرائی
جب زلف سنواری ہے اک آئینہ ٹوٹا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام