اس حادثے پہ آنکھ سے آنسو نکل گئے

غزل| حفیظؔ بنارسی انتخاب| بزم سخن

اس حادثے پہ آنکھ سے آنسو نکل گئے
کتنے حسین لوگ مشینوں میں ڈھل گئے
دنیا اسے سنے گی تو بس مسکرائے گی
جگنو پکڑ رہا تھا مرے ہاتھ جل گئے
موسم کے انتظار میں کچھ لوگ ہیں کھڑے
کچھ لوگ منزلوں سے بھی آگے نکل گئے
ہم کو بھی اپنے خوں سے نہانا تھا شام تک
سورج کے ساتھ ہم بھی سفر پر نکل گئے
اک شاخِ گل جھکی تھی ہمارے بہت قریب
ہم لڑ کھڑا گئے تھے مگر پھر سنبھل گئے
کاغذ کے چند ٹکڑوں کی امید میں حفیظؔ
لے کر کہاں کہاں نہ ہم اپنی غزل گئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام