خاکداں کو ماورائے آسماں لے جائے گا

غزل| محسنؔ احسان انتخاب| بزم سخن

خاکداں کو ماورائے آسماں لے جائے گا
جو پرندہ سر پہ رکھ کر آشیاں لے جائے گا
میں فقط پِیتا رہوں گا ساحلوں کی تشنگی
وہ سمندر کی سبھی طغیانیاں لے جائے گا
جب اتر جائیں گی تہہ میں خواہشوں کی کشتیاں
ناخدا تب کھول کر سب بادباں لے جائے گا
کارواں کے سب مسافر سوچتے ہیں شام سے
صبحِ دم کس سمت میرِ کارواں لے جائے گا
کیا خبر ہے کس کی پہلے پُتلیاں پِھر جائیں گی
کون اپنے ساتھ کیا سود و زیاں لے جائے گا
ہم کنارے پر کھڑے گنتے رہیں گے موج موج
اور سفینے کو کہیں آبِ رواں لے جائے گا

اب تو ہے خطرے میں محسنؔ خرقۂ درویش بھی
تو بچا کر شملۂ عزت کہاں لے جائے گا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام