ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل اتنے کہاں خراب تھے

غزل| اعتبارؔ ساجد انتخاب| بزم سخن

ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل اتنے کہاں خراب تھے
ہم بھی کسی کی آس تھے ہم بھی کسی کا خواب تھے
اب جو ہوئے ہیں خیر سے راندۂ خلقِ شہر ہم
چہرۂ شب کا نور تھے شیشۂ فن کی آب تھے
دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرف آرزو
اس کی کتابِ زیست میں لائقِ انتساب تھے
ایسی تھیں وہ رفاقتیں جیسے ہم اپنے آپ میں
رنگِ شعاع مہر تھے ریزۂ آفتاب تھے
وعدوں کا ایک شہر تھا جس سے گزر رہے تھے ہم
آنکھیں کھلیں تو دور تک ہر سو وہی سراب تھے
دل سا چراغ کیا بجھا آنکھیں دھواں دھواں ہوئیں
کہنے کو اپنے آس پاس کتنے ہی ماہتاب تھے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام