یہ عروجِ ہستی ہے یا زوالِ ہستی ہے

غزل| مجیبؔ خیر آبادی انتخاب| بزم سخن

یہ عروجِ ہستی ہے یا زوالِ ہستی ہے
اُن کی آرزو مہنگی اپنی موت سستی ہے
کھل چکے ہیں رندوں پر راز ہائے میخانہ
خود نگاہِ ساقی سے نشنگی برستی ہے
دور تک نہیں کوئی ساتھ دشتِ غربت میں
راستوں کی ویرانی اور دل کو ڈستی ہے
کچھ تو اے غم جاناں تجھ کو بھولنا ہوگا
صرف تیرا ہو رہنا اک بلند پستی ہے
اک تجھی کو چاہا تھا کیا خدائی چاہی تھی
پھر بھی کم نظر دنیا جرمِ دل پہ ہنستی ہے
کل انہیں کی پیشانی صبحِ نو جگائے گی
جن کی تیرہ بختی پر آج رات ہنستی ہے
دل مجیبؔ ایسے میں ڈوب ڈوب جاتا ہے
جب نگاہِ دشمن سے دوستی برستی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام