لو دے اٹھے وہ حرفِ طلب سوچ رہے ہیں

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

لو دے اٹھے وہ حرفِ طلب سوچ رہے ہیں
کیا لکھئے سرِ دامنِ شب سوچ رہے ہیں
کیا جانئے منزل ہے کہاں جاتے ہیں کس سمت
بھٹکی ہوئی اس بھیڑ میں سب سوچ رہے ہیں
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
ٹوٹے ہوئے پتّوں سے درختوں کو تعلق؟
ہم دور کھڑے شہرِ طرب سوچ رہے ہیں
بجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں ہے سرِ محفل
کیا رنگ جمے آخرِ شب سوچ رہے ہیں
اس لہر کے پیچھے بھی رَواں ہیں نئی لہریں
پہلے نہیں سوچا تھا جو اب سوچ رہے ہیں
ہم ابھرے بھی ڈوبے بھی سیاہی کے بھنور میں
ہم سوئے نہیں شب ہمہ شب سوچ رہے ہیں
ایمان کی شہ رگ ہوں میں انسان کا دل ہوں
کیا آپ مرا نا م و نسب سوچ رہے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام