مریضِ غم کے سہارو! کوئی تو بات کرو

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

مریضِ غم کے سہارو! کوئی تو بات کرو
اداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو
کہاں ہے ڈوب چکا اب تو ڈوبنے والا
شکستہ دل سے کنارو! کوئی تو بات کرو
مرے نصیب کو بربادیوں سے نسبت ہے
لٹی ہوئی سی بہارو! کوئی تو بات کرو
کہاں گیا وہ تمہارا بلندیوں کا جنون
بجھے بجھے سے شرارو! کوئی تو بات کرو
اسی طرح سے عجب کیا جو کچھ سکون ملے
غمِ فراق کے مارو! کوئی تو بات کرو
تمہارا غم بھی مٹاتی ہیں مستیاں کہ نہیں
شرابِ ناب کے مارو! کوئی تو بات کرو

تمہاری خاک اڑاتا نہیں شکیبؔ تو کیا
اداس راہ گزارو! کوئی تو بات کرو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام