ہر کسی کے لب پہ اک ایسا ترانہ چھوڑ دے

غزل| ابن حسؔن بھٹکلی انتخاب| بزم سخن

ہر کسی کے لب پہ اک ایسا ترانہ چھوڑ دے
جس کو سن کر آنکھ بھی آنسو بہانا چھوڑ دے
میں ترے معیار پر پورا اتر سکتا نہیں
اے مرے محبوب! مجھ کو آزمانا چھوڑ دے
دھیرے دھیرے دھڑکنیں قابو میں آ ہی جائیں گی
صرف اتنا کر یہ طرزِ والہانہ چھوڑ دے
تیرے کاسے میں فقط ہمدردیاں ڈالیں گے لوگ
داستانِ غم زمانے کو سنانا چھوڑ دے
ورنہ تعبیروں کو بھی آنسو بہا لے جائیں گے
نت نئے خوابوں کو پلکوں پر سجانا چھوڑ دے
کیا خبر کب کون لے آئے محبت کے خطوط
شاخ پر بیٹھے پرندوں کو اڑانا چھوڑ دے

گفتگو کے اور بھی انداز ہیں ابن حسؔن
کج روی ، حجت ، بہانہ ، شاخسانہ چھوڑ دے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام